کڑے ہیں ہجر کے لمحات اس سے کہہ دینا
بکھر رہی ہے مری ذات اس سے کہہ دینا
ہوائے موسم غم اس کے شہر جائے تو
مرے دکھوں کی کوئی بات اس سے کہہ دینا
یہ وحشتیں یہ اداسی یہ رتجگوں کے عذاب
اسی کی ہیں یہ عنایات اس سے کہہ دینا
وہ دل کی بازی جہاں مجھ سے جیتنا چاہے
میں مان لوں گا وہیں مات اس سے کہہ دینا
وفا کی راہ میں میں آج بھی اکیلا ہوں
کوئی نہیں ہے مرے ساتھ اس سے کہہ دینا
جہاں پہ عدل کی زنجیر نصب ہے شہبازؔ
وہیں کٹے ہیں مرے ہات اس سے کہہ دینا
غزل
کڑے ہیں ہجر کے لمحات اس سے کہہ دینا
شہباز خواجہ