EN हिंदी
کچوکے دل کو لگاتا ہوا سا کچھ تو ہے | شیح شیری
kachoke dil ko lagata hua sa kuchh to hai

غزل

کچوکے دل کو لگاتا ہوا سا کچھ تو ہے

سلیمان خمار

;

کچوکے دل کو لگاتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ رات رات جگاتا ہوا سا کچھ تو ہے

کرشمہ یہ ترے الفاظ کا نہیں پھر بھی
فضا میں زہر اگاتا ہوا سا کچھ تو ہے

اگر یہ موت کا سایہ نہیں تو پھر کیا ہے
قدم قدم پہ بلاتا ہوا سا کچھ تو ہے

نہ جاگ اٹھا ہو کہیں بیتی عمر کا لمحہ
رگوں میں شور مچاتا ہوا سا کچھ تو ہے

تعلقات کی خوشبو کہ رشتۂ ماضی
تمہاری بزم سے جاتا ہوا سا کچھ تو ہے

اک اہتمام خصوصی کے باوجود خمارؔ
یہ فاصلوں کو بڑھاتا ہوا سا کچھ تو ہے