کبھی یوں بھی کرو شہر گماں تک لے چلو مجھ کو
جہاں تک روشنی ہے تم وہاں تک لے چلو مجھ کو
بھٹکتا جا رہا ہوں راہ رو ملتا نہیں کوئی
غبار راہ میرے کارواں تک لے چلو مجھ کو
غم آوارگی سے میں شکستہ ہوتا جاتا ہوں
پرندو تم ہی اپنے آشیاں تک لے چلو مجھ کو
خموشی جھیل لی میں نے رہائی کی گھڑی آئی
سخن کے واسطے لفظ و بیاں تک لے چلو مجھ کو
کسی تعبیر کی منزل سے یا تو آشنا کر دو
نہیں تو پھر اسی خواب گراں تک لے چلو مجھ کو
طرازؔ اب تو تحفظ کی کوئی صورت نہیں ملتی
مرے رہبر کسی جائے اماں تک لے چلو مجھ کو

غزل
کبھی یوں بھی کرو شہر گماں تک لے چلو مجھ کو
راشد طراز