EN हिंदी
کبھی وہ دیدۂ دل وا بھی چھوڑ جاتے ہیں | شیح شیری
kabhi wo dida-e-dil wa bhi chhoD jate hain

غزل

کبھی وہ دیدۂ دل وا بھی چھوڑ جاتے ہیں

محشر بدایونی

;

کبھی وہ دیدۂ دل وا بھی چھوڑ جاتے ہیں
کبھی خیال کا رستہ بھی چھوڑ جاتے ہیں

نہ جاؤ گھر کے شب افروز روزنوں پہ کہ لوگ
دیا مکان میں جلتا بھی چھوڑ جاتے ہیں

کچھ اعتبار نہیں ہم رہان صحرا کا
یہ دور شہر سے تنہا بھی چھوڑ جاتے ہیں

جو بو الہوس ہیں پھر آتے ہیں تیرے کوچے میں
جو بے غرض ہیں وہ دنیا بھی چھوڑ جاتے ہیں

پلٹتے بھی نہیں سرمستیوں کے سیل اور پھر
نشانیاں لب دریا بھی چھوڑ جاتے ہیں

اب اس سے پیشروان چمن کو کیا مطلب
چمن نشینوں کو جیسا بھی چھوڑ جاتے ہیں

بڑھا بھی لیتے ہیں رہ گیر ان کی خاک سے پیار
پھر اپنی خاک کو رسوا بھی چھوڑ جاتے ہیں