EN हिंदी
کبھی تم نے بھی یہ سوچا کہ ہم فریاد کیا کرتے | شیح شیری
kabhi tumne bhi ye socha ki hum fariyaad kya karte

غزل

کبھی تم نے بھی یہ سوچا کہ ہم فریاد کیا کرتے

نخشب جارچوی

;

کبھی تم نے بھی یہ سوچا کہ ہم فریاد کیا کرتے
تمہارا دل دکھا کر اپنے دل کو شاد کیا کرتے

مری بربادیوں پر ہنسنے والو یہ تو سمجھا دو
جو مل جاتا تمہیں کو یہ دل برباد کیا کرتے

نگاہ یاس میں جب نالۂ خاموش پنہاں ہے
تو پھر ہونٹھوں کو ہم شرمندۂ فریاد کیا کرتے

دم آخر بھی اے دل خود فریبی ہچکیاں کیسی
جو دانستہ بھلا بیٹھے وہ تجھ کو یاد کیا کرتے

مجھے دیکھا تو ہر اک نے انہیں جلاد ٹھہرایا
انہیں دیکھا تو بولے یہ بھلا بیداد کیا کرتے

زمانہ جانتا ہے حضرت نخشبؔ کی خود داری
خلاف عقل ہے وہ آرزوئے داد کیا کرتے