EN हिंदी
کبھی تجھ سے ایسا بھی یارانا تھا | شیح شیری
kabhi tujhse aisa bhi yarana tha

غزل

کبھی تجھ سے ایسا بھی یارانا تھا

محمد علوی

;

کبھی تجھ سے ایسا بھی یارانا تھا
مصلے سے اٹھنا گوارا نہ تھا

یوں ہی اس طرف ہم چلے آئے تھے
کسی نے بھی ہم کو پکارا نہ تھا

وہ اک موج تھی سر اٹھاتی ہوئی
کہیں کیسے دل سے کنارا نہ تھا

چمک جس کی کل شب مزا دے گئی
کہیں آج کی شب وہ تارا نہ تھا

بہت خوش ہوئے آئینہ دیکھ کر
یہاں کوئی ثانی ہمارا نہ تھا

سحر ہو رہی تھی مگر رات نے
لباس عروسی اتارا نہ تھا