EN हिंदी
کبھی تو صحن انا سے نکلے کہیں پہ دشت ملال آیا | شیح شیری
kabhi to sehn-e-ana se nikle kahin pe dasht-e-malal aaya

غزل

کبھی تو صحن انا سے نکلے کہیں پہ دشت ملال آیا

ہلال فرید

;

کبھی تو صحن انا سے نکلے کہیں پہ دشت ملال آیا
ہماری وحشت پہ کیسا کیسا عروج آیا زوال آیا

عداوتیں تھیں محبتیں تھیں نہ جانے کتنی ہی حسرتیں تھیں
مگر پھر ایسا ہوا کہ سب کچھ میں خود ہی دل سے نکال آیا

کبھی عبادت کبھی عنایت کبھی دعائیں کبھی عطائیں
کہیں پہ دست طلب بنے ہم کہیں پہ ہم تک سوال آیا

گلوں کے چہرے کھلے ہوئے ہیں ہوا میں خوش بو مہک رہی ہے
یہ میری آنکھوں نے خواب دیکھا کہ سیل حسن و جمال آیا

تمام رنج و محن کو چھوڑیں تمہیں کو دیکھیں تمہیں کو سوچیں
بڑے زمانے کے بعد دل میں یہ بھولا بسرا خیال آیا

غزل سناؤں تو داد پاؤں مگر میں تم سے بھی کیا چھپاؤں
تمہی نے سارے ہنر سکھائے تمہی سے رنگ ہلالؔ آیا