کبھی تو سامنے آ بے لباس ہو کر بھی
ابھی تو دور بہت ہے تو پاس ہو کر بھی
تیرے گلے لگوں کب تک یوں احتیاطاً میں
لپٹ جا مجھ سے کبھی بد حواس ہو کر بھی
تو ایک پیاس ہے دریا کے بھیس میں جانا
مگر میں ایک سمندر ہوں پیاس ہو کر بھی
تمام اہل نظر صرف ڈھونڈھتے ہی رہے
مجھے دکھائی دیا سورداس ہو کر بھی
مجھے ہی چھو کے اٹھائی تھی آگ نے یہ قسم
کہ ناامید نہ ہوگی اداس ہو کر بھی
غزل
کبھی تو سامنے آ بے لباس ہو کر بھی
بھویش دلشاد