کبھی تو ملتوی ذکر جہاں گرداں بھی ہونا تھا
کبھی تو اہتمام صحبت یاراں بھی ہونا تھا
توقع کے مطابق ہے یہ تبدیلی تو حیرت کیا
اسے مشکل بھی ہونا تھا مجھے آساں بھی ہونا تھا
ریاکاروں پہ کل تک جس کے دروازے مقفل تھے
اسی جنت میں جشن فتنہ پردازاں بھی ہونا تھا
کبھی دیکھا نہ تھا یوں ہم نے بازار وفا ویراں
تو کیا اس شہر میں قحط خریداراں بھی ہونا تھا
ابھی تک جو کنارے سے بظاہر شانت لگتا تھا
اسی دریا کو اب طوفاں پس طوفاں بھی ہونا تھا
بالآخر ہم بھی شب بھر جاگتے رہنے سے باز آئے
دیار ہجر میں کچھ وصل کا ساماں بھی ہونا تھا
یہ تازہ باب دانائی یہاں آ کر میں ششدر ہوں
جو کل تک تھے بہت دانا انہیں ناداں بھی ہونا تھا
غزل
کبھی تو ملتوی ذکر جہاں گرداں بھی ہونا تھا
نشتر خانقاہی