کبھی تو ڈوب چلے ہم کبھی ابھرتے ہوئے
خود اپنی ذات کے دریا کو پار کرتے ہوئے
یہیں سے راہ کوئی آسماں کو جاتی تھی
خیال آیا ہمیں سیڑھیاں اترتے ہوئے
اگر وو خواب ہے جو آنکھ میں سلامت ہے
تو پھر یے کیا ہے جسے دیکھتا ہوں مرتے ہوئے
سمٹ کے خود میں مرا خیر کیا بنا ہوتا
ہوا کے دوش پہ تھا دور تک بکھرتے ہوئے
نئے سفر کی کہیں ابتدا نہ ہو منزل
یے پاؤں پوچھ رہے ہیں تھکن سے ڈرتے ہوئے
ابھی تو دور تلک آسمان سونا تھا
کہاں سے آ گئے پنچھی اڑان بھرتے ہوئے
غزل
کبھی تو ڈوب چلے ہم کبھی ابھرتے ہوئے
اکھلیش تیواری