کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے
اب اس کا ملنا ملانا بھی خواب جیسا ہے
یہ تشنگئ محبت نہ بجھ سکے گی کبھی
یہ مت کہو کہ یہ دریا سراب جیسا ہے
غموں کی دھوپ میں امید کے بھی سائے ہوں
تو زندگی میں یہی انقلاب جیسا ہے
کبھی خیال سے باہر کبھی خیال میں ہے
وہ ایک چہرہ جو دل میں گلاب جیسا ہے
کوئی ملے نہ ملے بیقرار رہتا ہے
کہ دل کا حال بھی اک موج آب جیسا ہے
ہمارے دل میں وہی ہے جو سب پہ ظاہر ہے
کہ اپنا چہرہ کھلی اک کتاب جیسا ہے
وہ جس کی ذات سے جینے کا لطف تھا نادرؔ
بچھڑ گیا تو یہ جینا عذاب جیسا ہے
غزل
کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے
اطہر نادر