کبھی سوز دل کا گلہ کیا کبھی لب سے شور فغاں اٹھا
کوئی اہل ضبط بھلا بتو اسے کیا کرے جو دھواں اٹھا
یہ خدا کی شان تو دیکھیے کہ خدا کا نام ہی رہ گیا
مجھے تازہ یاد بتاں ہوئی جو حرم سے شور اذاں اٹھا
مرے صبر نے بھی غضب کیا کہ عدو کی جان پہ بن گئی
یہ کہاں کی چوٹ کہاں لگی یہ کہاں کا درد کہاں اٹھا
جو کبھی لگی کی خبر سنی تو غضب کی چوٹ یہاں لگی
مجھے سوز دل کا گماں ہوا جو کسی کے گھر سے دھواں اٹھا
نہ ہوا علاج غم خودی کسی برہمن سے نہ شیخ سے
مجھے اس بلا سے بچانے کو جو اٹھا تو پیر مغاں اٹھا
یہ جہان دام فریب ہے جو چلے تو دیکھ کے چل ذرا
جو تجھے خیال ہو دید کا تو سمجھ کے آنکھ یہاں اٹھا
تری راہ شوق میں ضعف سے کہوں حال ناطقؔ زار کیا
یہ وہیں اٹھا ہے جہاں گرا یہ وہیں گرا ہے جہاں اٹھا
غزل
کبھی سوز دل کا گلہ کیا کبھی لب سے شور فغاں اٹھا
ناطق گلاوٹھی