کبھی سسکی کبھی آوازہ سفر جاری ہے
کسی دیوانے کا دیوانہ سفر جاری ہے
تھک کے بیٹھیں تو کہیں ہاتھ وہ چھوڑوا ہی نہ لے
بس اسی خوف میں ہی اندھا سفر جاری ہے
یہ جو آگے کی طرف پاؤں نہیں اٹھتے مرے
اپنے اندر کی طرف میرا سفر جاری ہے
کتنی ہی منزلیں پا کر بھی تسلی نہ ہوئی
میرے بل بوتے پہ قسمت کا سفر جاری ہے
کچھ مہینے تو ہمیں جاگ کے ہی چلنا پڑا
کچھ مہینوں سے یہ خوابیدہ سفر جاری ہے
جس کو بھی چلتا ہوا دیکھیں سو چل پڑتے ہیں
کیوں وقارؔ اپنا یہ ان دیکھا سفر جاری ہے
غزل
کبھی سسکی کبھی آوازہ سفر جاری ہے
وقار خان