کبھی سایہ تو کبھی دھوپ کا منظر بدلے
در و دیوار ہوئے دشت نما گھر بدلے
موسموں نے تو درختوں کو دیے پیراہن
اور ہواؤں نے اڑانوں کے لیے پر بدلے
اس نے چٹان میں اک پھول کھلایا تو کیا
پتھروں کو نہ بدلنا تھا نہ پتھر بدلے
ریگ زاروں میں چلا قافلۂ موج حیات
تشنگی ریت کے صحرا میں سمندر بدلے
اک ترے غم کے اجالوں کی ردائیں مل جائیں
زندگی جسم کی یہ میلی سی چادر بدلے
غزل
کبھی سایہ تو کبھی دھوپ کا منظر بدلے
مختار شمیم