کبھی نغمۂ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم
کبھی خاک کوچۂ یار ہم کبھی شہریار بہار ہم
کبھی چل پڑے تری راہ میں تو حد جنوں سے گزر گئے
ترے انتظار میں ہو گئے کبھی نقش راہگزار ہم
ہمیں کشتگان حیات سے ہیں جنون عشق کی عظمتیں
کبھی ہنس پڑے تہ تیغ ہم کبھی جھوم اٹھے سر دار ہم
رہے مضطرب کبھی مدتوں غم دہر کی کڑی دھوپ میں
جو سکوں ملا ہے تو سو لیے کبھی زیر گیسوئے یار ہم
تجھے پا سکیں کہ نہ پا سکیں کوئی زندگی کی لگن تو ہے
کہ خوشی سے کیسے اجاڑ دیں تری آرزو کا دیار ہم
غم زندگی سے شکست کیا رہ آرزو میں قدم بڑھا
تو جو ساتھ ہو تو بدل بھی دیں یہ مزاج لیل و نہار ہم
کبھی پاس آ کے نگاہ کر ہے یہ زندگی ترا آئنہ
ترا روپ ہم ترا پیار ہم تری آرزو کا سنگار ہم
غزل
کبھی نغمۂ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم
پیام فتحپوری