EN हिंदी
کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے | شیح شیری
kabhi nakaamiyon ka apni hum matam nahin karte

غزل

کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے

آزاد گورداسپوری

;

کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے
مقدر میں جو غم لکھے ہیں ان کا غم نہیں کرتے

تمہارے نقش پا پر جو نگاہیں اپنی رکھتے ہیں
وہ سر دیر و حرم کے سامنے بھی خم نہیں کرتے

گھٹاؤں کو برسنے کا اشارہ ہی نہیں ملتا
وہ جب تک زلف اپنے دوش پر برہم نہیں کرتے

مسائل دور حاضر کے ہیں موضوع غزل کچھ یوں
کہ شاعر آج کے ذکر گل و شبنم نہیں کرتے

اسے تہذیب غم کا نام اہل درد دیتے ہیں
مرے آنسو کبھی دامن تمہارا نم نہیں کرتے

سمجھتے ہیں اسے اہل نظر سامان خود بینی
شکستہ آئنہ کا وہ کبھی ماتم نہیں کرتے

اندھیروں کی شکایت کیا اندھیرے پھر اندھیرے ہیں
اجالے بھی ستم اس دور میں کچھ کم نہیں کرتے

محبت کس سے ہم کرتے ہیں کچھ بتلا نہیں سکتے
یہ ہے وہ راز جس میں دل کو بھی محرم نہیں کرتے

فریبوں سے کہاں تک دل کو ہم آزادؔ بہلائیں
سراب دشت شدت تشنگی کی کم نہیں کرتے