کبھی نہ سوچا تھا میں نے اڑان بھرتے ہوئے
کہ رنج ہوگا زمیں پر مجھے اترتے ہوئے
یہ شوق غوطہ زنی تو نیا نہیں پھر بھی
اتر رہا ہوں میں گہرائیوں میں ڈرتے ہوئے
ہوا کے رحم و کرم پر چراغ رہنے دو
کہ ڈر رہا ہوں نئے تجربات کرتے ہوئے
نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا جس میں
کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے ابھرتے ہوئے
میں اس گھرانے کا چشم و چراغ ہوں جس کی
حیات گزری ہے خوابوں میں رنگ بھرتے ہوئے
میں سب سے ملتا رہا ہنس کے اس طرح کہ مجھے
کسی نے دیکھا نہیں ٹوٹتے بکھرتے ہوئے
فراغؔ ایسے بھی انسان میں نے دیکھے ہیں
جو سچ کی راہ میں پائے گئے ہیں مرتے ہوئے
غزل
کبھی نہ سوچا تھا میں نے اڑان بھرتے ہوئے
فراغ روہوی