کبھی مجھے کبھی خود کو بھلا کے دیکھتا ہے
وہ اپنے آپ کو بھی آزما کے دیکھتا ہے
تعلقات میں اپنی ہے مصلحت سب کی
کبھی وہ دور کبھی پاس آ کے دیکھتا ہے
میں جا رہا ہوں بہت دور شہر سے اپنے
وہ سن کے بات مری مسکرا کے دیکھتا ہے
اسی کا حکم ہے تاریک گھر کو رکھنے کا
مگر چراغ دل و جاں جلا کے دیکھتا ہے
تباہ جس کے لیے خود کو کر لیا میں نے
وہی نظر سے مجھے اب گرا کے دیکھتا ہے
غزل
کبھی مجھے کبھی خود کو بھلا کے دیکھتا ہے
خان رضوان