کبھی مکاں میں کبھی رہ گزر میں رہتے تھے
یہ روز و شب تو ہمیشہ نظر میں رہتے تھے
ہوا کی راہ میں اڑتی تھی زندگی اپنی
مثال موج کبھی ہم بھنور میں رہتے تھے
محبتوں میں بہت دل دھڑکتا رہتا تھا
عجیب لوگ دل معتبر میں رہتے تھے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ تتلیاں پکڑنے کا
تمام رنگ مگر چشم تر میں رہتے تھے
خزاں سے پہلے یہاں کا عجیب موسم تھا
ثمر کی طرح پرندے شجر میں رہتے تھے
گریز پائی کا شکوہ کریں تو کس سے کریں
سفر میں رہ کے بھی ہم لوگ گھر میں رہتے تھے
ہوا کے ساتھ زمانہ بدل گیا ہے رضیؔ
ہمیں تھے وہ جو کبھی اس نظر میں رہتے تھے
غزل
کبھی مکاں میں کبھی رہ گزر میں رہتے تھے
خواجہ رضی حیدر