EN हिंदी
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا | شیح شیری
kabhi kitabon mein phul rakhna kabhi daraKHton pe nam likhna

غزل

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا

حسن رضوی

;

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرف سلام لکھنا

وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا

گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا وہ قصۂ ناتمام لکھنا

مرے نگر کی حسیں فضاؤ کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ کہاں ہے ان کا قیام لکھنا

کھلی فضاؤں میں سانس لینا عبث ہے اب تو گھٹن ہے ایسی
کہ چاروں جانب شجر کھڑے ہیں صلیب صورت تمام لکھنا

گئی رتوں میں حسنؔ ہمارا بس ایک ہی تو یہ مشغلہ تھا
کسی کے چہرے کو صبح کہنا کسی کی زلفوں کو شام لکھنا