EN हिंदी
کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا | شیح شیری
kabhi kisi se na humne koi gila rakkha

غزل

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

عرفان ستار

;

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا
ہزار زخم سہے اور دل بڑا رکھا

چراغ یوں تو سر طاق دل کئی تھے مگر
تمہاری لو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا

خرد سے پوچھا جنوں کا معاملہ کیا ہے
جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا

خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں
جو خاک تھا سو اسے خاک میں ملا رکھا

ہزار شکر ترا اے مرے خدائے جنوں
کہ مجھ کو راہ خرد سے گریز پا رکھا

چھپا ہوا نہیں تجھ سے دل تباہ کا حال
یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا

وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگ جاں سے
وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا

بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیر سے
کسی نے سر پہ توجہ سے ہاتھ کیا رکھا

سنائی اپنی کہانی بڑے سلیقے سے
کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا

سنا جو شور کہ وہ شیشہ‌ گر کمال کا ہے
تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہش دنیا سے ماورا رکھا

مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا

خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی
خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا

کبھی نہ ہونے دیا طاق دل کو بے رونق
چراغ ایک بجھا اور دوسرا رکھا

نگاہ‌ دار مرا تھا مرے سوا نہ کوئی
سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا

تو پاس تھا تو رہے محو دیکھنے میں تجھے
وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا

ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں
ہمارے بعد بتا آئنے میں کیا رکھا

ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال
دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا

ہمیں پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن
تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا

ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی
سو ہم نے عشق رکھا آپ نے خدا رکھا

خزاں تھی اور خزاں سی خزاں خدا کی پناہ
ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا

جو ناگہاں کبھی اذن سفر ہوا عرفانؔ
تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا