کبھی کسی کو نہ عہد وفا کا پاس ہوا
سحر کا خواب اندھیروں سے روشناس ہوا
وہ ایک لفظ جو محدود خلوت کن تھا
وہ لفظ پھیلا تو منصور خود شناس ہوا
ہمارے بعد بھی لاکھوں تھے ڈوبنے والے
اب اس کو کیا کریں دریا ہی نا سپاس ہوا
کرم کسی کا حد اعتدال سے بڑھ کر
ہمارے جذبۂ خود دار کی اساس ہوا
طلب میں ہم سفری کی لگن کہاں پھر بھی
پکار لیں گے اگر کوئی آس پاس ہوا
ادھر تھا لفظ وفا جیسے حکم شاہانہ
مری زبان پہ آیا تو التماس ہوا
توقعات کے جادو کا زور تو ٹوٹا
شکست آج طلسم امید و یاس ہوا
مراحل غم ہستی کی الجھنیں توبہ
کہیں وفا کا کہیں زندگی کا پاس ہوا
وہ خامشی تھی جو تحسین ناشناس ہوئی
وہ شور تھا جو سکوت سخن شناس ہوا
غزل
کبھی کسی کو نہ عہد وفا کا پاس ہوا
مختار ہاشمی