EN हिंदी
کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی | شیح شیری
kabhi KHwahish na hui anjuman-arai ki

غزل

کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی

احمد مشتاق

;

کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی
کوئی کرتا ہے حفاظت مری تنہائی کی

میں تو گم اپنے نشے میں تھا مجھے کیا معلوم
کس نے منہ پھیر لیا کس نے پذیرائی کی

وہ تغافل بھی نہ تھا اور توجہ بھی نہ تھی
کبھی ٹوکا نہ کبھی حوصلہ افزائی کی

ہچکیاں شام شفق تاب کی تھمتی ہی نہ تھیں
اب بھی رک رک کے صدا آتی ہے شہنائی کی

ہم سے پہلے بھی سخنور ہوئے کیسے کیسے
ہم نے بھی تھوڑی بہت قافیہ پیمائی کی