کبھی خدا کبھی انسان روک لیتا ہے
میں جب بھی جاتا ہوں دربان روک لیتا ہے
بغیر چاک کئے گھر سے میں اگر نکلوں
تو مجھ کو میرا گریبان روک لیتا ہے
میں جب بھی جسم سے اذن وداع مانگتا ہوں
وہ کہہ کے مجھ کو مری جان روک لیتا ہے
بس ایک جست میں دنیا کے پار اتر جاؤں
مگر مجھے میرا سامان روک لیتا ہے
بہانہ چاہئے مجھ کو بھی کوئی رکنے کا
سو وہ بہ حیلۂ آسان روک لیتا ہے
میں اپنے کفر سے شرمندہ ہوں کہ اس کی طرف
مرے قدم مرا ایمان روک لیتا ہے
فرار ہو گئی ہوتی کبھی کی روح مری
بس ایک جسم کا احسان روک لیتا ہے
کبھی تو آئیں گے احساسؔ جی کی بیعت میں
ہمیں یہی بس اک امکان روک لیتا ہے
غزل
کبھی خدا کبھی انسان روک لیتا ہے
فرحت احساس