کبھی خود کو چھوکر نہیں دیکھتا ہوں
خدا جانے بس وہم میں مبتلا ہوں
کہاں تک یہ رفتار قائم رہے گی
کہیں اب اسے روکنا چاہتا ہوں
وہ آ کر منا لے تو کیا حال ہوگا
خفا ہو کے جب اتنا خوش ہو رہا ہوں
فقط یہ جتاتا ہوں آواز دے کر
کہ میں بھی اسے نام سے جانتا ہوں
گلی میں سب اچھا ہی کہتے تھے مجھ کو
مجھے کیا پتا تھا میں اتنا برا ہوں
نہیں یہ سفر واپسی کا نہیں ہے
اسے ڈھونڈنے اپنے گھر جا رہا ہوں
غزل
کبھی خود کو چھوکر نہیں دیکھتا ہوں
شارق کیفی