کبھی کبھی یہ سونا پن کھل جاتا ہے
بس اک لمحہ آتا ہے ٹل جاتا ہے
تجھ سے مجھ کو بیر سہی پر کبھی کبھی
دنیا تیرا جادو بھی چل جاتا ہے
جان لیا ہے لیکن ماننا باقی ہے
تو سایہ ہے اور سایہ ڈھل جاتا ہے
اک دن میں اشکوں میں یوں گھل جاؤں گا
جیسے کاغذ بارش میں گل جاتا ہے
کس کے قبضے میں ہے خزانہ اجالوں کا
کون زمیں پر تاریکی مل جاتا ہے
اس کو تیری یاد کہوں یا اپنی یاد
شام سے پہلے ایک دیا جل جاتا ہے
غزل
کبھی کبھی یہ سونا پن کھل جاتا ہے
عبید صدیقی