EN हिंदी
کبھی کبھی یہ سونا پن کھل جاتا ہے | شیح شیری
kabhi kabhi ye suna-pan khal jata hai

غزل

کبھی کبھی یہ سونا پن کھل جاتا ہے

عبید صدیقی

;

کبھی کبھی یہ سونا پن کھل جاتا ہے
بس اک لمحہ آتا ہے ٹل جاتا ہے

تجھ سے مجھ کو بیر سہی پر کبھی کبھی
دنیا تیرا جادو بھی چل جاتا ہے

جان لیا ہے لیکن ماننا باقی ہے
تو سایہ ہے اور سایہ ڈھل جاتا ہے

اک دن میں اشکوں میں یوں گھل جاؤں گا
جیسے کاغذ بارش میں گل جاتا ہے

کس کے قبضے میں ہے خزانہ اجالوں کا
کون زمیں پر تاریکی مل جاتا ہے

اس کو تیری یاد کہوں یا اپنی یاد
شام سے پہلے ایک دیا جل جاتا ہے