کبھی کبھی تو محبت کی زندگی کے لئے
خود ان کو ہم نے ابھارا ہے برہمی کے لئے
کیا ہے کام بڑا زندگی میں اشکوں نے
دیے جلائے شب غم میں روشنی کے لئے
وہ آج بھی ہیں اسی تیرگی کی منزل میں
اجالا مانگ کے لائے جو روشنی کے لئے
ادائے جور محبت میں ناگوار نہیں
خلوص چاہئے اے دوست برہمی کے لئے
یہ دور وہ ہے کہ اپنے ہیں غیر سے بد تر
کلیجہ چاہئے اپنوں سے دوستی کے لئے
دلیل عظمت انساں ہے یہ نظام جہاں
زمیں ہے گردش پیہم میں آدمی کے لئے
ہمارے حال پریشاں پہ کاش ایک نظر
بھرے ہیں روپ یہ ہم نے تری خوشی کے لئے
یہ زندگی بھی عجب زندگی ہے کیا کہیے
متینؔ ٹھوکریں کھاتے ہیں ہم خوشی کے لئے

غزل
کبھی کبھی تو محبت کی زندگی کے لئے
متین نیازی