کبھی کبھی میں انہیں دل میں آن رکھتا ہوں
پھر ایک خواب میں دونوں جہان رکھتا ہوں
جب آسمان سبھی کے سروں پہ قائم ہے
تو کس کے واسطے میں سائبان کرتا ہوں
میں لفظ و معنی بدلتے ہوئے سر قرطاس
پلٹ کے پھر وہی نوحہ بیان رکھتا ہوں
ازل سے ایک ہی نقصان کھا رہا ہے مجھے
ازل سے خود کو فقط رائیگان رکھتا ہوں
صدائے کن پہ بنا آدمی کی رکھی گئی
اس ایک صوت پہ میں اپنے کان رکھتا ہوں
عجیب رمز ہے قرطاس اور لکیر کے بیچ
زمین کھینچتا ہوں آسمان رکھتا ہوں
پرانا عکس نیا عکس بن کے ابھرے گا
میں آئنہ کے مقابل گمان رکھتا ہوں
وہ میرے واسطے کیا کیا سنبھالے رکھتا ہے
میں اس کے واسطے کس کس کا دھیان رکھتا ہوں

غزل
کبھی کبھی میں انہیں دل میں آن رکھتا ہوں
اسامہ امیر