کبھی کبھار بھی کب سائباں کسی نے دیا
نہ ہاتھ سر پہ بجز آسماں کسی نے دیا
نثار میں تری یادوں کی چھتریوں پہ نثار
نہ اس طرح کا کبھی سائباں کسی نے دیا
ہمارے پاؤں بھی اپنے نہیں ہیں اور سر بھی
زمیں کہیں سے ملی آسماں کسی نے دیا
بکا تھا کل بھی تو اک ذہن چند سکوں میں
سند کسی کو ملی امتحاں کسی نے دیا
الجھ پڑا تھا وہ مالک مکان سے اک دن
پھر اس کے بعد نہ اس کو مکاں کسی نے دیا
تو اتنے غم کو سنبھالے گا کس طرح ناسکؔ
اگر تجھے بھی غم بے کراں کسی نے دیا
غزل
کبھی کبھار بھی کب سائباں کسی نے دیا
اطہر ناسک