کبھی جدا دو بدن ہوئے تو دلوں پہ یہ دو عذاب اترے
بچھڑنے والے کی یاد آئی ملن کے آنکھوں میں خواب اترے
بڑھی ہے فکر معاش جب سے مرے خیالوں کی وادیوں میں
نہ اس کے چہرے کا چاند ابھرا نہ عارضوں کے گلاب اترے
الجھ گیا زندگی کے کانٹے میں اتفاقاً ہمارا دامن
زمیں کے گولے پہ سیر کرنے کو ہم جو خانہ خراب اترے
جنہوں نے مانگی انہیں تو دی ہی گئی جہاں میں خوشی کی دولت
بغیر مانگے بھی کاہلوں پر فلک سے غم بے حساب اترے
چلی جو آندھی تو ہر کلی نے جھکا کے سر کو یہ التجا کی
چمن کے مالک ہمارے رخ سے ابھی نہ رنگ شباب اترے
غزل
کبھی جدا دو بدن ہوئے تو دلوں پہ یہ دو عذاب اترے
سوز نجیب آبادی