EN हिंदी
کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے | شیح شیری
kabhi jo mil na saki us KHushi ka hasil hai

غزل

کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے

عین عرفان

;

کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے
یہ درد ہی تو مری زندگی کا حاصل ہے

میں اپنے آپ سے پیچھا نہیں چھڑا پایا
مرا وجود مری بے بسی کا حاصل ہے

یہ تیرگی بھی کسی روشنی سے نکلی ہے
یہ روشنی بھی کسی تیرگی کا حاصل ہے

ہزار کاوشیں کیں پر نہیں سمجھ پایا
کوئی بتائے تو کیا آدمی کا حاصل ہے

مرا وجود جو پتھر دکھائی دیتا ہے
تمام عمر کی شیشہ گری کا حاصل ہے

معاشرے میں جو مشہور ہو گیا عرفاںؔ
وہ ایک شعر تری شاعری کا حاصل ہے