کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے
یہ درد ہی تو مری زندگی کا حاصل ہے
میں اپنے آپ سے پیچھا نہیں چھڑا پایا
مرا وجود مری بے بسی کا حاصل ہے
یہ تیرگی بھی کسی روشنی سے نکلی ہے
یہ روشنی بھی کسی تیرگی کا حاصل ہے
ہزار کاوشیں کیں پر نہیں سمجھ پایا
کوئی بتائے تو کیا آدمی کا حاصل ہے
مرا وجود جو پتھر دکھائی دیتا ہے
تمام عمر کی شیشہ گری کا حاصل ہے
معاشرے میں جو مشہور ہو گیا عرفاںؔ
وہ ایک شعر تری شاعری کا حاصل ہے
غزل
کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے
عین عرفان