EN हिंदी
کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی | شیح شیری
kabhi jo KHatm na ho aisi tazgi de di

غزل

کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی

ارجمند بانو افشاں

;

کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی
تری وفا نے نئی مجھ کو زندگی دے دی

ہمارے پاس تھا کیا اور متاع دل کے سوا
ترے سوال پہ وہ بھی خوشی خوشی دے دی

وہ شخص کون تھا جس کے خلوص پیہم نے
مری حیات کو سورج سی روشنی دے دی

عجیب بات ہے جس نے حیات مانگی تھی
اسے تو موت ملی مجھ کو زندگی دے دی

میں اپنے دور سے کس درجہ شرمسار رہے
غضب کیا مجھے عرفان و آگہی دے دی

تڑپ تڑپ کے جیے جس کے پیار میں افشاؔں
اسی کی یاد میں لو آج جان بھی دے دی