کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی
تری وفا نے نئی مجھ کو زندگی دے دی
ہمارے پاس تھا کیا اور متاع دل کے سوا
ترے سوال پہ وہ بھی خوشی خوشی دے دی
وہ شخص کون تھا جس کے خلوص پیہم نے
مری حیات کو سورج سی روشنی دے دی
عجیب بات ہے جس نے حیات مانگی تھی
اسے تو موت ملی مجھ کو زندگی دے دی
میں اپنے دور سے کس درجہ شرمسار رہے
غضب کیا مجھے عرفان و آگہی دے دی
تڑپ تڑپ کے جیے جس کے پیار میں افشاؔں
اسی کی یاد میں لو آج جان بھی دے دی
غزل
کبھی جو ختم نہ ہو ایسی تازگی دے دی
ارجمند بانو افشاں