کبھی جو خاک کی تقریب رو نمائی ہوئی
بہت اڑے گی وہاں بھی مری اڑائی ہوئی
خدا کا شکر سخن مجھ پہ مہربان ہوا
بہت دنوں سے تھی لکنت زباں میں آئی ہوئی
یہی ہے غض بصر یہ ہے دیکھنا میرا
رہے گی آنکھ تحیر میں ڈبڈبائی ہوئی
تمھارا میرا تعلق ہے جو رہے سو رہے
تمھارے ہجر نے کیوں ٹانگ ہے اڑائی ہوئی
پکڑ لیا گیا جیسے کہ میں لگاتا ہوں
بجھا رہا تھا کسی اور کی لگائی ہوئی
لہو لہو ہوا سجدے میں دل اگرچہ رضاؔ
شب شکست بڑے زور کی لڑائی ہوئی

غزل
کبھی جو خاک کی تقریب رو نمائی ہوئی
رفیع رضا