کبھی جب داستان گردش ایام لکھتا ہوں
تو پھر عنوان کی صورت میں اپنا نام لکھتا ہوں
کبھی آغاز لکھتا ہوں کبھی انجام لکھتا ہوں
اسیران محبت کی جو صبح و شام لکھتا ہوں
جلانے لگتی ہے جب شدت تشنہ لبی مجھ کو
تری آنکھوں کو مے خانہ نظر کو جام لکھتا ہوں
کسی پر کس لیے تہمت رکھوں خانہ خرابی کی
میں اپنے نام بربادی کے سب الزام لکھتا ہوں
محبت کے تقدس کو کبھی پامال مت کرنا
محبت کا یہی پیغام سب کے نام لکھتا ہوں
مخاطب ہونے لگتی ہے خود اپنی زندگی مجھ سے
ولیؔ جب بھی میں شرح گردش ایام لکھتا ہوں

غزل
کبھی جب داستان گردش ایام لکھتا ہوں
ولی اللہ ولی