کبھی ادھر جو سگ کوئے یار آ نکلا
گماں ہوا مرے ویرانہ میں ہما نکلا
رخ اس کا دیکھ ہوا زرد نیر اعظم
سنہرے برج سے جس دم وہ مہ لقا نکلا
وہ سن کے پاک محبت کا نام کہتے ہیں
ہماری جان کو لو یہ بھی پارسا نکلا
ہمارے پاؤں پڑے آ کے آبلے ہر گام
کبھی جو دشت جنوں میں برہنہ پا نکلا
مہ صیام میں آیا جو وہ ہلال ابرو
گماں ہوا یہ مجھے چاند عید کا نکلا
جہاں کی سیر تو کی تو نے لیکن اے شہ حسن
کبھی فقیر کے تکیے پہ تو نہ آ نکلا
نہ نکلا وہم کے مارے وہ گھر سے بھی سیاحؔ
گلی سے یار کے تابوت جب مرا نکلا
غزل
کبھی ادھر جو سگ کوئے یار آ نکلا
میاں داد خاں سیاح