کبھی حدود سے باہر کبھی وہ حد میں رہا
مرا یقین ہمیشہ گماں کی زد میں رہا
ہے بحر و بر میں رواں حال میرا سیارہ
گہے وہ برج سمک میں گہے اسد میں رہا
اسی کے دم سے رہی زندگی کی رنگینی
جنوں کا کیف جو پیمانۂ خرد میں رہا
اسے نصیب کہاں لذت سبیل سفر
وہ کارواں جو نگہبانی رسد میں رہا
اسے کہاں سے ملے گی ترے مکاں میں اماں
تمام عمر جو پیکار نیک و بد میں رہا
رضاؔ جو گزرا تو کچھ روشنی بھی چھوڑ گیا
وہ اک شرر تھا جو اندیشۂ ابد میں رہا
غزل
کبھی حدود سے باہر کبھی وہ حد میں رہا
موسیٰ رضا