EN हिंदी
کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے | شیح شیری
kabhi hayat ka gham hai kabhi tera gham hai

غزل

کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے

احمد راہی

;

کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے
ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے

خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا
مگر یہاں بھی وہی اضطراب پیہم ہے

مرے حبیب مری مسکراہٹوں پہ نہ جا
خدا گواہ مجھے آج بھی ترا غم ہے

سحر سے رشتۂ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے

یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی راہیؔ
قدم قدم پہ جہاں بے بسی کا عالم ہے