کبھی گلوں کبھی خاروں کے درمیاں گزری
صبا چمن سے بظاہر تو شادماں گزری
اسی کا نام ازل ہے اسی کا نام ابد
وہ ایک رات جو پھولوں کے درمیاں گزری
کہیں لپک اٹھے شعلے کہیں مہک اٹھے گل
شب فراق نہ پوچھو کہاں کہاں گزری
بہ شکل قامت آدم بہ طرز رقص پری
ہمارے سر پہ قیامت بھی کیا جواں گزری
کبھی کبھی تو غم دل کی لے بڑھی اتنی
دل حیات کی دھڑکن بھی کچھ گراں گزری
بڑے نشیب بہت پیچ و خم تھے راہوں میں
مگر یہ عمر دو روزہ رواں دواں گزری
بہم رہے ہیں سر و سینہ یک دگر کیا کیا
کہ سر پہ تیغ پڑی دل سے جب سناں گزری
غزل
کبھی گلوں کبھی خاروں کے درمیاں گزری
خورشید الاسلام

