کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں
تباہ کر گیا مجھے وہ دوستی کی آڑ میں
وہ جب چلا گیا یہاں سے پھر مجھے خبر ہوئی
کہ موت پالتا رہا ہوں زندگی کی آڑ میں
وہ شخص بھی عجیب تھا عجیب اس کے شوق تھے
خدا تراشتا رہا صنم گری کی آڑ میں
میں قربتوں کی چاہ میں قریب اس کے ہو گیا
وہ دور مجھ سے ہو گیا تھا پھر سہی کی آڑ میں
عجب نہیں بہار رت میں سانپ بھی ہوں باغ میں
کسی گلاب کی جگہ کسی کلی کی آڑ میں
سخن کی لے نے دوریوں کے سلسلے مٹا دئے
ترے قریب آ گئے ہیں شاعری کی آڑ میں

غزل
کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں
شاہد فرید