کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو
یہ سب تمہارے ہی گھر ہیں کسی بھی گھر میں رہو
جلا نہ لو کہیں ہمدردیوں میں اپنا وجود
گلی میں آگ لگی ہو تو اپنے گھر میں رہو
تمہیں پتہ یہ چلے گھر کی راحتیں کیا ہیں
ہماری طرح اگر چار دن سفر میں رہو
ہے اب یہ حال کہ در در بھٹکتے پھرتے ہیں
غموں سے میں نے کہا تھا کہ میرے گھر میں رہو
کسی کو زخم دیے ہیں کسی کو پھول دیے
بری ہو چاہے بھلی ہو مگر خبر میں رہو
غزل
کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو
راحتؔ اندوری