کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے
ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے
جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے
جھوٹ لکھوں تو مرا ہاتھ ہنر کو ترسے
قریۂ نامہ براں اب کے کہاں جائیں کہ جب
ترے پہلو میں بھی ہم اس کی خبر کو ترسے
سب کے سب تشنۂ تکمیل ہیں اس شہر کے لوگ
کوئی دستار کو ترسے کوئی سر کو ترسے
شہر بے مہر میں زندہ ہیں ترے بن جیسے
دھوپ کے شہر کا باشندہ شجر کو ترسے
غزل
کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے
جواز جعفری