کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت
اپنے پھولوں کو سمجھیں خار درخت
چار سو ہے انہیں کا لکھ پیڑا
یہ عناصر کے ہیں جو چار درخت
میرے گلزار میں ہیں شعلے پھول
میرے ہر آہ شعلہ بار درخت
سو فساد ایک عشق میں اٹھے
بویا اک تخم اگے ہزار درخت
جب چلا باغ سے وہ سرو رواں
ہو گئے طائروں کو دار درخت
جس کو طوبیٰ زمانہ کہتا ہے
تیرے گھر میں ہے سایہ دار درخت
تو خزاں میں جو سیر کو نکلے
مرے ہو جائیں بے بہار درخت
پھل نہ لایا نہال عشق اپنا
پھلے پھولے ہزار بار درخت
بحرؔ کیا نشہ میں خوش آتے ہیں
نہر گلشن کے دار پار درخت
غزل
کبھی دیکھیں جو روئے یار درخت
امداد علی بحر