کبھی درد آشنا تیرا بھی قلب شادماں ہوگا
کبھی نام خدا تو بھی تو اے کم سن جواں ہوگا
نہیں معلوم ان کی جلوہ گہ میں کیا سماں ہوگا
نظر جب کامراں ہوگی تو اے دل تو کہاں ہوگا
وہی اک سانس مدہوش حیات جاوداں ہوگا
جو آہ سرد بن کر سوز غم کا ترجماں ہوگا
لرز جائیں گے یہ مظلومی دل کے تماشائی
اگر یہ خاک کا تو وہ کبھی آتش فشاں ہوگا
جو سوز دل سے مضطر ہو کے آئے گا سر مژگاں
تو خورشید قیامت میرا اشک خونچکاں ہوگا
ستارے بن کے چمکیں گے دل برباد کے ذرے
یہ دل برباد ہو کر بھی دلیل کارواں ہوگا

غزل
کبھی درد آشنا تیرا بھی قلب شادماں ہوگا
واصف دہلوی