کبھی بھولے بسرے جو میں کہیں کسی مے کدہ میں چلا گیا
مرے نام آیا ہے جام اگر نہ لیا گیا نہ پیا گیا
گیا بزم حسن و جمال میں جو میں شوق عرض طلب لیے
مرے ذہن و دل کا وہ حال تھا کہ زباں سے کچھ نہ کہا گیا
مرے نامہ بر نے جو خط دیا مجھے لا کے جان بہار کا
ہوئی ذہن و دل کی وہ کیفیت نہ پڑھا گیا نہ سنا گیا
بہ ہزار کوشش و جستجو مرا زخم دل نہ ہوا رفو
لگے لاکھ مرہم رنگ و بو نہ بھرا گیا نہ سیا گیا
تری بے رخی نے دیا وہ غم جو کسی طرح بھی ہوا نہ کم
مجھے گھن کی طرح لگا رہا مری زندگانی کو کھا گیا
وہ تجسس اپنا بھی خوب تھا کہ تلاش حق تھی جگہ جگہ
مگر اپنے دل پہ پڑی نظر تو میں ایک لمحہ میں پا گیا
ہے امیرؔ دل میں وہی چمک جو پڑی تھی نور کی اک جھلک
وہی ایک پرتو حسن تو مری زندگی کو سجا گیا

غزل
کبھی بھولے بسرے جو میں کہیں کسی مے کدہ میں چلا گیا
محمد امیر اعظم قریشی