EN हिंदी
کبھی بھول کر بھی نہ بات کی مجھے دل سے ایسا بھلا دیا | شیح شیری
kabhi bhul kar bhi na baat ki mujhe dil se aisa bhula diya

غزل

کبھی بھول کر بھی نہ بات کی مجھے دل سے ایسا بھلا دیا

شباب

;

کبھی بھول کر بھی نہ بات کی مجھے دل سے ایسا بھلا دیا
کہوں کیا میں تیری شرارتیں کہ جگر کو تو نے جلا دیا

وہ بناؤ کرنے ہیں بیٹھتے تو سبھوں سے لیتے ہیں خدمتیں
کبھی مل دی مسی رقیب نے کبھی سرمہ میں نے لگا دیا

غم عشق کی سنی داستاں تو کلیجہ تھام کے یار نے
یہ کہا کہ قصہ عجیب تھا مرے دل کو اس نے کڑھا دیا

مرے خط کو اس نے نہ جب پڑھا مرے نامہ بر کو بھی غم ہوا
کہا مدتوں کا جو آسرا تھا وہ آج تم نے مٹا دیا

کبھی پوچھا میں نے بہشت کو کہ بتاؤ تو وہ ہے کس طرف
تو شبابؔ کوچۂ یار کا مجھے زاہدوں نے پتا دیا