کبھی بھنور تھی جو اک یاد اب سنامی ہے
مگر یہ کیا کہ مجھے اب بھی تشنہ کامی ہے
میں اس پہ جان چھڑکتا ہوں با خدا پھر بھی
کہیں ہے کچھ مرے بھیتر جو انتقامی ہے
مگر جو وہ ہے وہی ہے بھلا کہاں کوئی اور
ہزار عیب سہی مانا لاکھ خامی ہے
جو جی میں آیا وہی من و عن ہے کاغذ پر
نہ سوچا سمجھا سا کچھ اور نہ اہتمامی ہے
کسی کے رنگ رنگا میں نہ میرے رنگ کوئی
یہ ابتدائی نیا ڈھب تو اختتامی ہے
ملاحظہ ہو کہوں کیوں توجہ کیوں چاہوں
کلام کب ہے مرا شعر خود کلامی ہے
میں اپنی مونچھوں پہ دوں تاؤ بھی تو کس منہ سے
یہاں تو جو بھی ہے مجھ سے بڑا حرامی ہے
غزل
کبھی بھنور تھی جو اک یاد اب سنامی ہے
شمیم عباس