کبھی بہت ہے کبھی دھیان تیرا کچھ کم ہے
کبھی ہوا ہے کبھی آندھیوں کا موسم ہے
ابھی نہ توڑا گیا مجھ سے قید ہستی کو
ابھی شراب جنوں کا نشہ بھی مدھم ہے
کہ جیسے ساتھ ترے زندگی گزرتی ہو
ترا خیال مرے ساتھ ایسے پیہم ہے
تمام فکر زمان و مکاں سے چھوٹ گئی
سیاہ کارئ دل مجھ کو ایسا مرہم ہے
میں خود مسافر دل ہوں اسے نہ روکوں گی
وہ خود ٹھہر نہ سکے گا جو قیدیٔ غم ہے
وہ شوق تیز روی ہے کہ دیکھتا ہے جہاں
زمیں پہ آگ لگی آسمان برہم ہے
غزل
کبھی بہت ہے کبھی دھیان تیرا کچھ کم ہے
تنویر انجم