کبھی بہار نہ آئی بہار کی صورت
بدل گئی چمن روزگار کی صورت
ہوائے لطف و کرم کے فقط سہارے پر
پڑے ہیں راہ میں گرد و غبار کی صورت
وفا کی شکل نہ دیکھی تمہارے وعدوں پر
یہی زمانے میں ہے اعتبار کی صورت
پس فنا مری قسمت کھلی وہ روتے ہیں
خود اپنے گھر میں بنا کر مزار کی صورت
بگولہ دیکھ کے شکر خدا وہ کہتے ہیں
نظر میں پھر گئی اک خاکسار کی صورت
جدھر زمانہ پھرا میں بھی ساتھ ساتھ پھرا
جو رنگ دیکھا وہی اختیار کی صورت
ہر ایک بات پہ چبھتی ہوئی جو کہتا ہوں
تمہارے دل میں کھٹکتا ہوں خار کی صورت
کسی کا بھیس بھریں گے سخاؔ ہیں چلتے ہوئے
ہزار روپ سے دیکھیں گے یار کی صورت
غزل
کبھی بہار نہ آئی بہار کی صورت
سید نظیر حسن سخا دہلوی