کبھی عذابوں میں بس رہی ہے کبھی یہ خوابوں میں کٹ رہی ہے
یہ مختصر سی ہے زندگی جو ہزار خانوں میں بٹ رہی ہے
کہیں پہ خوشیوں کی بارشیں ہیں کہیں پہ نغمات عیش و مستی
مگر غریبوں کے گلشنوں سے خزاں ہی بڑھ کر لپٹ رہی ہے
کہاں ہے جذبے محبتوں کے کہاں ہے رسم وفا پرستی
ملی تھی تہذیب کی بدولت وہی محبت تو گھٹ رہی ہے
لگے ہیں بڑھنے نظر نظر میں فحاشیوں کے تمام سپنے
سروں پہ سایہ فگن تھی کل تک ردا حیا کی سمٹ رہی ہے
جو سن رسیدہ شجر تھے سارے جڑوں سے اپنی اکھڑ رہے ہیں
زمیں کے رشتوں کی چھاؤں یارو سروں سے اپنے بھی چھٹ رہی ہے
کسے سنائیں گے اب وہ ذاکرؔ کہ چاہتوں میں کشش نہیں ہے
نظر سے اوجھل میں ہو رہا ہوں نگہ سے وہ بھی تو ہٹ رہی ہے
غزل
کبھی عذابوں میں بس رہی ہے کبھی یہ خوابوں میں کٹ رہی ہے
ذاکر خان ذاکر