کبھی انجانے میں جب بھی کسی کا دل دکھاتا ہوں
تو پھر تنہائیوں میں بیٹھ کر آنسو بہاتا ہوں
مجھے معلوم ہے منظر حسیں وہ ہو چکے دھندلے
مگر کیوں روز آنکھوں میں وہی منظر بلاتا ہوں
مری اس بات سے ناراض ہیں کچھ بستیوں والے
خوشی گھر گھر لٹاتا ہوں مگر غم کیوں چھپاتا ہوں
مری سانسوں کی قوت کا بہت مشکل ہے اندازہ
میں پھونکوں سے چراغوں کو نہیں سورج بجھاتا ہوں
مری فطرت ہے اپنے حافظے کو تازہ رکھنے کی
میں اپنا حافظہ کمزور ہونے سے بچاتا ہوں
غزل
کبھی انجانے میں جب بھی کسی کا دل دکھاتا ہوں
مشتاق صدف